زرین خیالات



تحقیق کے بغیر اظہار خیال کرنا خیانت ہے! 

تحریر: محمد حسن جمالی 

انسان کی مخصوص صفات میں سے ایک اس کا خود مختار ہونا ہے ،وہ عملی زندگی میں اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے دینی اور دنیوی امور کو سر انجام دیتا ہے ،اسی خصوصیت کے پیش نظر یہ کہنا درست ہے کہ بشر کو بیان اور رای کی آذادی حاصل ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آذادی رای وبیان سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ی، دینی، اقتصادی، ثقافتی . مسائل پر اظہار رائے کرنے میں کسی قید وشرط کا پابند نہیں؟ علمی اور فنی اصطلاح کے مطابق بیان ورائے کی آذادی سے مقصود مطلق ہے یا مشروط؟

 جب ہم اس سوال کا جواب اپنے معاشرے میں ڈھونڈھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آذادی رائے وبیان کے بارے میں ہمارے معاشرے کے لوگوں کی زہنیت یکسان نہیں، لوگوں کی ظاہری سرگرمیوں اور عملی فعالیتوں کو دیکھ کر ہم یہ کہسکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں ایک طبقے کے ہاں بیان ورائے کی آذادی سے مراد مطلق ہے ـ ان کی نظر میں انسان جو بھی منہ پر آئے بیان کرسکتا ہے، کسی بھی مسئلے پر جس طرح چاہئے وہ اظہار خیال کرسکتا ہے ،رائے دے سکتا ہےـ  اسی سوچ کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں سانس لینے والے قلمی میدان میں سرگرم افراد کی ایک قابل توجہ تعداد بسااوقات بے بنیاد باتوں کو حقائق بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے ، فن خطابت میں معمولی مہارت رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جعلی احادیث اور اسرائیلی روایات کا سہارا لے کر عوام الناس کو گمراہ کرتی ہے ، تفسیر قرآن کا شد بد رکھنے والے کچھ مغرض افراد آیات قرآن کی غلط تفسیر  اور شریعت کے مسلم اصول وقوانین سے ٹکرانے والی تاویلات کرکے دین کا مزاق اڑاتے ہیں،  ی میدان کے کچھ ناپختہ افراد دل فریب اور جزباتی جزاب باتوں کے زریعے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں، اسلام کے فرہنگ سے ناآشنا لوگ مغربی ثقافت کو اسلامی معاشرے میں عام کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں ـ  

 اس کے مقابل میں سنجیدہ افراد کا نظریہ یہ ہے کہ آذادی رائے وبیان کا مطلب مطلق نہیں بلکہ مشروط ہے ـ بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے مطلوب کی مکمل شناخت حاصل کرے اور مطلوب سے مراد وہ مسئلہ یا موضوع ہے جس پر وہ اپنی رائے  قائم کرنا چاہتا ہے ـ بنابرایں جس مسئلے سے انسان کو آگاہی ہی نہ ہو نیز جس موضوع سے انسان لاعلم ہو اس کے بارے میں اظہار خیال کرنا نہ فقط درست نہیں بلکہ خیانت ہے جس کا نتیجہ ناقابل تلافی نقصان کے سوا کچھ نہیں ـ مثال کے طور پر جو شخص شعبہ مڈیکل سے یکسر جاہل ہو وہ کسی مریض کی بیماری کے بارے میں اظہار رائے کرکے اس کے لئے نسخہ تجویز کرے تو اس سے بیمار نہ صرف سلامتی نہیں پائے گا بلکہ ممکن ہے وہ جان سے ہی ھاتھ دھوبیٹھےـ  یہی صورتحال دینی ی سماجی اور دوسرے مسائل و موضوعات میں بھی ہےـ چنانچہ عقل کے حکم کے مطابق اس قاعدہ پر تمام عقلاء عالم کا اتفاق ہے کہ جاہل کو عالم کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے ـ اس قاعدے کا دائرہ بہت وسیع ہے، یہ انسان کے اجتماعی اور معاشرتی مسائل سے لیکر دینی مسائل میں بھی جاری وساری ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کچھ مغرض افراد نے اس قاعدے کو محدود کرنے کی کوششوں میں اپنی ساری توانائیاں صرف کی اور کررہے ہیں جس کی ایک مثال ہمارے معاشرے میں چند سالوں سے تقلید کے خلاف ایک گروہ کا کی جانے والی تبلیغات اور پریپیگنڈے ہیں، وہ مختلف طریقے سے عوام الناس کو مراجع سے متنفر کرنے میں سرگرم ہے ـ اس گروہ کا کہنا ہے کہ کسی مجتہد کی تقلید کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہم اپنے دینی مسائل کا حل قرآن اور روایات سے اخذ کرسکتے ہیں  وغیرہ چنانچہ اس ہدف کی تکمیل کے لئے انہوں نے جاہل اور ناداں افراد کو ذاکرین کے نام سے ممبر حسینی پر لاکر بٹھایا، گانے کے طرز میں ان سے مجلسیں پڑھوائیں،  پیسوں کا ڈھیر ان کے سامنے رکھ کر ان کی خوب حوصلہ افزائی کی گئی ، ان کی زبان سے مراجع عظام کے خلاف بکواسات بکوائے گئے ، عزاداری کی بے حرمتی کروائی گئی ، شعائر دینی کا مزاق اڑیا گیا، مسلمانوں کے درمیان نفرت کے زھر اگلوائے گئے ، امہات المؤمنین اور اصحاب رسول پر لعن طعن کروائے گئے، ملت تشیع کے مقدس عقائد میں شرک آمیز باتیں شامل کرکے اسے مشکوک کروانے کی ناکام کوشیش کی گئیں . اسی طرح ت کے میدان میں دیکھا جائے تو ی مسائل پر  قلمی طاقت کے حامل ایک ٹولہ غلط اور جھوٹ پر مبنی تجزیہ وتحلیل کرکے حقائق عوام سے دور رکھنے میں سرگرم دکھائی دیتا ہے جس کی مثال دنیا نیوز سے منسلک کالم نگار نذیر ناجی
کے21 مارچ 2019 کو شایع ہونے والے کالم میں واضح طور پر دیکھے جاسکتی ہے، انہوں نے نہ جانتے ہوئے یا تجاہل عارفانہ کا مظاھرہ کرتے ہوئے ایران اور انقلاب کے بارے میں بے بنیاد باتیں لکھ کر اپنی محبوبیت کو کھٹادیا ہے ـ نمونہ ملاحظہ کریں ـ موصوف نے کالم کے شروع میں مختصر مقدمہ لکھنے کے بعد لکھا ہے (  ۔1979ء کے انقلاب کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی ایک نظریے کے تحت واضح کی گئی ‘ اصل مقصد انقلاب کو فروغ دینا اورشرق اوسط کواپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے تبدیل کرنا تھا۔انقلاب کے بعد سے ہی اپنے جارحانہ طور طریقوں کے سبب ‘ ایران امریکا سے جنگ آزما ہے۔  اسرائیل اور عرب دنیا سے بھی محاذ آرائی جیسی کیفیت رہی‘یہ نظام ‘ ایران کے قومی مفاد اور ایرانی عوام کے مجموعی مفادات کے مخالف رہا۔ ممکن ہے‘ ایران عراق‘ شام اور لبنان میں ایک بالادست قوت بن چکا ہو‘ لیکن ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ ایران خود عشروں سے جاری ان پالیسیوں کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہو چکا۔اپنی ان خارجہ پالیسیوں کے نتیجے میں اس کو بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا سامنا رہا ‘) ناجی صاحب خدارا پہلے آپ ایران اور انقلاب کے بارے میں درست معلومات حاصل کریں پھر تجزیہ کرنے کی کوشش کریں ـ ایران اور امریکا کے درمیان مخاصمت کی وجہ ایران کے جارحانہ طور وطریقے نہیں اس لئے کہ ایران نے آج تک کوئی جارحانہ طریقہ اپنایا ہی نہیں بلکہ اس کی روش ہمیشہ منصفانہ، عاقلانہ اور معتدل رہی ہے ـ جناب عالی کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ جو چیز ایران اور امریکہ کے درمیان دشمنی کا سبب بنی ہے وہ انقلاب کی بدولت ایران میں نافذ ہونے والے عادلانہ اسلامی نظام ہے ،امریکہ کی جارحیت اور مظالم کے خلاف ایران کی مقاومت اور استقامت ہے، مختصر یہ کہ ایران پوری دنیا میں حق کا بول بالا چاہتے ہیں جب کہ امریکہ اس کا برعکس پوری دنیا میں حق کو سرکوب کرکے باطل کی حکومت اور غلبے کا خواہاں ہے، درنتیجہ ان کا ٹکراو حق اور باطل کا ٹکراو ہے جو مصداق کی تبدیلی کے ساتھ ابتداء افرینش سے تھا اور تا قیامت رہے گا ـ ناجی صاحب شام ،یمن ،فلسطین ،کشمیر سمیت دنیا کے دوسرے ممالک کے حالات پر ذرا غائرانہ نگاہ ڈال کر آپ خود اپنے ضمیر سے پوچھ کر فیصلہ کیجئے کہ جارحانہ طریقہ امریکہ نے اختیار کررکھا ہے یا ایران نے . اس کے بعد موصوف نے لکھا ہے( وہ اقتصادی اور ماحولیاتی طور پر زبوں حال بھی رہا ۔ایرانی حکومت پر عائد پابندیوں کے سبب‘ ایران اپنی توانائی کی صنعت کو جدید نہیں بناسکا‘نہ ہی اپنے تیل کو احسن طریقے سے عالمی منڈیوں میں فروخت کر سکا۔ موصوف کالم نگار کی خدمت میں عرض کردوں کہ درست ہے امریکہ کی پابندیوں کی وجہ سے وقتی طور پر ایران کا نظام اقتصاد متاثر ضرور ہوا لیکن ایسا ہرگز نہیں اس سے ایرانی قوم زبون حالی فقر وناداری اور بے بسی ولاچاری کا شکار ہوئی ہو بلکہ ایرانی قوم عزت اور س سے زندگی بسر کررہی ہے ان کی معمولات اور معاملات زندگی اپنے معمول کے مطابق انجام پارہے ہیں آپ جیسے ظاہر بین افراد کے آراء سے ہٹکر دنیا کے اقتصادی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین اقتصاد سے پوچھ لیں تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ امریکہ کی پابندی کا ایران کو نقصان کم اور فائدہ ذیادہ ہوا ہے ـ ناجی صاحب توجہ کریں انقلاب اسلامی نے احساس کمتری کو محو کرکے ایرانی قوم میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کیا،ی امور پر بھر پور توجہ کرنے کی قوت فراہم کی، دوست اور دشمن کو پہچاننے کی صلاحیت سے نوازا ،اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کا گر سکھایا، آغیار کی غلامی سے آذاد کرایا، عزت سے جینے کا طریقہ سکھایااوربے نیازی جیسی عظیم دولت سے مالامال کیاـ

 اقتصادی پابندی کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ایرانی قوم نے اپنے دور اندیش بابصیرت قائد کی رہنمائی کی بدولت زندگی کے تمام شعبوں میں انتہائی سرعت سے پیشرفت کی ،بالخصوص علمی شعبہ میں ایران کی ترقی حیرت انگیز ہے ۔ ایران کے رہبر اعلی نے اس حوالے سے اپنے متعدد خطابات میں اشارہ کرچکے ہیں وہ اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں:  دنیا کے معتبر سائنسی اداروں کی سنہ دو ہزار گیارہ کی رپورٹ کے مطا بق پوری دنیا میں سب سے تیز رفتار سائنسی ترقی ایران میں ہوئی ،دنیا کے معتبر علمی مراکز نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق علاقے میں ایران پہلے علمی مقام پر پہنچ چکا ہے، ایران کے ایٹمی ٹکنالوجی کا مسئلہ اب پوری دنیا میں نمایاں ہوگیا ہے، جوہری ٹکنالوجی کے علاوہ ایران نے فضائی و خلائی صنعتی اور ہنری شعبوں میں بھی بہت ترقی کی ہے، آج ایران میڈیکل سائنس کے انتہائی اہم اور صعب العلاج شعبوں میں بھی ترقی حاصل کر چکا ہے  ـ اسٹم سی، نینو،کلوننگ ،بیالوجی وغیرہ کی ٹکنالوجیز، سوپر کمپیوٹر کی ساخت ،جدید انرجی کی فراہمی  نیوکلیئر میڈیسن اور کینسر کی دواؤں کی پیداور میں بھی نمایاں کام انجام پائے ہیں ۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی ایک بڑی کامیابی عالمی مسائل میں بہت تیزی سے بڑھنے والا اس کا اثر و رسوخ ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران ایک بااثر ملک بن چکا ہے۔ کسی بھی مسئلہ میں اس کا نفی یا اثبات میں جواب علاقے اور دنیا کی سطح پر اپنا ایک خاص اثر رکھتا ہے۔ یہ کسی بھی ملک کے لئے بہت اہم پوزیشن اور اہم مقام ہوتا ہے۔
جاری


تحقیق کے بغیر اظہار خیال کرنا خیانت ہے! 

تحریر: محمد حسن جمالی 

انسان کی مخصوص صفات میں سے ایک اس کا خود مختار ہونا ہے ،وہ عملی زندگی میں اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے دینی اور دنیوی امور کو سر انجام دیتا ہے ،اسی خصوصیت کے پیش نظر یہ کہنا درست ہے کہ بشر کو بیان اور رای کی آذادی حاصل ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آذادی رای وبیان سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ی، دینی، اقتصادی، ثقافتی . مسائل پر اظہار رائے کرنے میں کسی قید وشرط کا پابند نہیں؟ علمی اور فنی اصطلاح کے مطابق بیان ورائے کی آذادی سے مقصود مطلق ہے یا مشروط؟

 جب ہم اس سوال کا جواب اپنے معاشرے میں ڈھونڈھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آذادی رائے وبیان کے بارے میں ہمارے معاشرے کے لوگوں کی زہنیت یکسان نہیں، لوگوں کی ظاہری سرگرمیوں اور عملی فعالیتوں کو دیکھ کر ہم یہ کہسکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں ایک طبقے کے ہاں بیان ورائے کی آذادی سے مراد مطلق ہے ـ ان کی نظر میں انسان جو بھی منہ پر آئے بیان کرسکتا ہے، کسی بھی مسئلے پر جس طرح چاہئے وہ اظہار خیال کرسکتا ہے ،رائے دے سکتا ہےـ  اسی سوچ کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں سانس لینے والے قلمی میدان میں سرگرم افراد کی ایک قابل توجہ تعداد بسااوقات بے بنیاد باتوں کو حقائق بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے ، فن خطابت میں معمولی مہارت رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جعلی احادیث اور اسرائیلی روایات کا سہارا لے کر عوام الناس کو گمراہ کرتی ہے ، تفسیر قرآن کا شد بد رکھنے والے کچھ مغرض افراد آیات قرآن کی غلط تفسیر  اور شریعت کے مسلم اصول وقوانین سے ٹکرانے والی تاویلات کرکے دین کا مزاق اڑاتے ہیں،  ی میدان کے کچھ ناپختہ افراد دل فریب اور جزباتی جزاب باتوں کے زریعے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں، اسلام کے فرہنگ سے ناآشنا لوگ مغربی ثقافت کو اسلامی معاشرے میں عام کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں ـ  

 اس کے مقابل میں سنجیدہ افراد کا نظریہ یہ ہے کہ آذادی رائے وبیان کا مطلب مطلق نہیں بلکہ مشروط ہے ـ بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے مطلوب کی مکمل شناخت حاصل کرے اور مطلوب سے مراد وہ مسئلہ یا موضوع ہے جس پر وہ اپنی رائے  قائم کرنا چاہتا ہے ـ بنابرایں جس مسئلے سے انسان کو آگاہی ہی نہ ہو نیز جس موضوع سے انسان لاعلم ہو اس کے بارے میں اظہار خیال کرنا نہ فقط درست نہیں بلکہ خیانت ہے جس کا نتیجہ ناقابل تلافی نقصان کے سوا کچھ نہیں ـ مثال کے طور پر جو شخص شعبہ مڈیکل سے یکسر جاہل ہو وہ کسی مریض کی بیماری کے بارے میں اظہار رائے کرکے اس کے لئے نسخہ تجویز کرے تو اس سے بیمار نہ صرف سلامتی نہیں پائے گا بلکہ ممکن ہے وہ جان سے ہی ھاتھ دھوبیٹھےـ  یہی صورتحال دینی ی سماجی اور دوسرے مسائل و موضوعات میں بھی ہےـ چنانچہ عقل کے حکم کے مطابق اس قاعدہ پر تمام عقلاء عالم کا اتفاق ہے کہ جاہل کو عالم کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے ـ اس قاعدے کا دائرہ بہت وسیع ہے، یہ انسان کے اجتماعی اور معاشرتی مسائل سے لیکر دینی مسائل میں بھی جاری وساری ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کچھ مغرض افراد نے اس قاعدے کو محدود کرنے کی کوششوں میں اپنی ساری توانائیاں صرف کی اور کررہے ہیں جس کی ایک مثال ہمارے معاشرے میں چند سالوں سے تقلید کے خلاف ایک گروہ کا کی جانے والی تبلیغات اور پریپیگنڈے ہیں، وہ مختلف طریقے سے عوام الناس کو مراجع سے متنفر کرنے میں سرگرم ہے ـ اس گروہ کا کہنا ہے کہ کسی مجتہد کی تقلید کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہم اپنے دینی مسائل کا حل قرآن اور روایات سے اخذ کرسکتے ہیں  وغیرہ چنانچہ اس ہدف کی تکمیل کے لئے انہوں نے جاہل اور ناداں افراد کو ذاکرین کے نام سے ممبر حسینی پر لاکر بٹھایا، گانے کے طرز میں ان سے مجلسیں پڑھوائیں،  پیسوں کا ڈھیر ان کے سامنے رکھ کر ان کی خوب حوصلہ افزائی کی گئی ، ان کی زبان سے مراجع عظام کے خلاف بکواسات بکوائے گئے ، عزاداری کی بے حرمتی کروائی گئی ، شعائر دینی کا مزاق اڑیا گیا، مسلمانوں کے درمیان نفرت کے زھر اگلوائے گئے ، امہات المؤمنین اور اصحاب رسول پر لعن طعن کروائے گئے، ملت تشیع کے مقدس عقائد میں شرک آمیز باتیں شامل کرکے اسے مشکوک کروانے کی ناکام کوشیش کی گئیں . اسی طرح ت کے میدان میں دیکھا جائے تو ی مسائل پر  قلمی طاقت کے حامل ایک ٹولہ غلط اور جھوٹ پر مبنی تجزیہ وتحلیل کرکے حقائق عوام سے دور رکھنے میں سرگرم دکھائی دیتا ہے جس کی مثال دنیا نیوز سے منسلک کالم نگار نذیر ناجی
کے21 مارچ 2019 کو شایع ہونے والے کالم میں واضح طور پر دیکھے جاسکتی ہے، انہوں نے نہ جانتے ہوئے یا تجاہل عارفانہ کا مظاھرہ کرتے ہوئے ایران اور انقلاب کے بارے میں بے بنیاد باتیں لکھ کر اپنی محبوبیت کو کھٹادیا ہے ـ نمونہ ملاحظہ کریں ـ موصوف نے کالم کے شروع میں مختصر مقدمہ لکھنے کے بعد لکھا ہے (  ۔1979ء کے انقلاب کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی ایک نظریے کے تحت واضح کی گئی ‘ اصل مقصد انقلاب کو فروغ دینا اورشرق اوسط کواپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے تبدیل کرنا تھا۔انقلاب کے بعد سے ہی اپنے جارحانہ طور طریقوں کے سبب ‘ ایران امریکا سے جنگ آزما ہے۔  اسرائیل اور عرب دنیا سے بھی محاذ آرائی جیسی کیفیت رہی‘یہ نظام ‘ ایران کے قومی مفاد اور ایرانی عوام کے مجموعی مفادات کے مخالف رہا۔ ممکن ہے‘ ایران عراق‘ شام اور لبنان میں ایک بالادست قوت بن چکا ہو‘ لیکن ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ ایران خود عشروں سے جاری ان پالیسیوں کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہو چکا۔اپنی ان خارجہ پالیسیوں کے نتیجے میں اس کو بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا سامنا رہا ‘) ناجی صاحب خدارا پہلے آپ ایران اور انقلاب کے بارے میں درست معلومات حاصل کریں پھر تجزیہ کرنے کی کوشش کریں ـ ایران اور امریکا کے درمیان مخاصمت کی وجہ ایران کے جارحانہ طور وطریقے نہیں اس لئے کہ ایران نے آج تک کوئی جارحانہ طریقہ اپنایا ہی نہیں بلکہ اس کی روش ہمیشہ منصفانہ، عاقلانہ اور معتدل رہی ہے ـ جناب عالی کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ جو چیز ایران اور امریکہ کے درمیان دشمنی کا سبب بنی ہے وہ انقلاب کی بدولت ایران میں نافذ ہونے والے عادلانہ اسلامی نظام ہے ،امریکہ کی جارحیت اور مظالم کے خلاف ایران کی مقاومت اور استقامت ہے، مختصر یہ کہ ایران پوری دنیا میں حق کا بول بالا چاہتے ہیں جب کہ امریکہ اس کا برعکس پوری دنیا میں حق کو سرکوب کرکے باطل کی حکومت اور غلبے کا خواہاں ہے، درنتیجہ ان کا ٹکراو حق اور باطل کا ٹکراو ہے جو مصداق کی تبدیلی کے ساتھ ابتداء افرینش سے تھا اور تا قیامت رہے گا ـ ناجی صاحب شام ،یمن ،فلسطین ،کشمیر سمیت دنیا کے دوسرے ممالک کے حالات پر ذرا غائرانہ نگاہ ڈال کر آپ خود اپنے ضمیر سے پوچھ کر فیصلہ کیجئے کہ جارحانہ طریقہ امریکہ نے اختیار کررکھا ہے یا ایران نے . اس کے بعد موصوف نے لکھا ہے( وہ اقتصادی اور ماحولیاتی طور پر زبوں حال بھی رہا ۔ایرانی حکومت پر عائد پابندیوں کے سبب‘ ایران اپنی توانائی کی صنعت کو جدید نہیں بناسکا‘نہ ہی اپنے تیل کو احسن طریقے سے عالمی منڈیوں میں فروخت کر سکا۔ موصوف کالم نگار کی خدمت میں عرض کردوں کہ درست ہے امریکہ کی پابندیوں کی وجہ سے وقتی طور پر ایران کا نظام اقتصاد متاثر ضرور ہوا لیکن ایسا ہرگز نہیں اس سے ایرانی قوم زبون حالی فقر وناداری اور بے بسی ولاچاری کا شکار ہوئی ہو بلکہ ایرانی قوم عزت اور س سے زندگی بسر کررہی ہے ان کی معمولات اور معاملات زندگی اپنے معمول کے مطابق انجام پارہے ہیں آپ جیسے ظاہر بین افراد کے آراء سے ہٹکر دنیا کے اقتصادی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین اقتصاد سے پوچھ لیں تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ امریکہ کی پابندی کا ایران کو نقصان کم اور فائدہ ذیادہ ہوا ہے ـ ناجی صاحب توجہ کریں انقلاب اسلامی نے احساس کمتری کو محو کرکے ایرانی قوم میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کیا،ی امور پر بھر پور توجہ کرنے کی قوت فراہم کی، دوست اور دشمن کو پہچاننے کی صلاحیت سے نوازا ،اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کا گر سکھایا، آغیار کی غلامی سے آذاد کرایا، عزت سے جینے کا طریقہ سکھایااوربے نیازی جیسی عظیم دولت سے مالامال کیاـ

 اقتصادی پابندی کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ایرانی قوم نے اپنے دور اندیش بابصیرت قائد کی رہنمائی کی بدولت زندگی کے تمام شعبوں میں انتہائی سرعت سے پیشرفت کی ،بالخصوص علمی شعبہ میں ایران کی ترقی حیرت انگیز ہے ۔ ایران کے رہبر اعلی نے اس حوالے سے اپنے متعدد خطابات میں اشارہ کرچکے ہیں وہ اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں:  دنیا کے معتبر سائنسی اداروں کی سنہ دو ہزار گیارہ کی رپورٹ کے مطا بق پوری دنیا میں سب سے تیز رفتار سائنسی ترقی ایران میں ہوئی ،دنیا کے معتبر علمی مراکز نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق علاقے میں ایران پہلے علمی مقام پر پہنچ چکا ہے، ایران کے ایٹمی ٹکنالوجی کا مسئلہ اب پوری دنیا میں نمایاں ہوگیا ہے، جوہری ٹکنالوجی کے علاوہ ایران نے فضائی و خلائی صنعتی اور ہنری شعبوں میں بھی بہت ترقی کی ہے، آج ایران میڈیکل سائنس کے انتہائی اہم اور صعب العلاج شعبوں میں بھی ترقی حاصل کر چکا ہے  ـ اسٹم سی، نینو،کلوننگ ،بیالوجی وغیرہ کی ٹکنالوجیز، سوپر کمپیوٹر کی ساخت ،جدید انرجی کی فراہمی  نیوکلیئر میڈیسن اور کینسر کی دواؤں کی پیداور میں بھی نمایاں کام انجام پائے ہیں ۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی ایک بڑی کامیابی عالمی مسائل میں بہت تیزی سے بڑھنے والا اس کا اثر و رسوخ ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران ایک بااثر ملک بن چکا ہے۔ کسی بھی مسئلہ میں اس کا نفی یا اثبات میں جواب علاقے اور دنیا کی سطح پر اپنا ایک خاص اثر رکھتا ہے۔ یہ کسی بھی ملک کے لئے بہت اہم پوزیشن اور اہم مقام ہوتا ہے۔
جاری


آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها

نا نوشته ها تا دیر نشده خرید کن سخن برتر چگونه محیط مدرسه را دل انگیز و دل پذیر کنیم . فاستبقوالخیرات بیوگرافی اینجا همه چی هست مغز کاوشگر - BRAIN PROBE shablontattoo باشگاه فرهنگی ورزشی پارسه مشهد